عسکریت پسندی کا مسئلہ سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے ” عادل شاہزیب کا آرٹیکل "

shahzeb.jpg

حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے عسکریت پسند حملے کے بعد حسب سابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بیانات کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد خبر آئی کہ افغان طالبان نے افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ تین درجن کے قریب لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے۔

ایسے کھوکھلے بیانات اور اقدامات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے، جسے اگر سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کی بھی جڑیں ہلا کر رکھ دے گا۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی اور اس سے جڑے عسکریت پسند گروپوں کی پاکستان کے اندر کارروائیوں میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہوا ہے بلکہ ان حملوں میں جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل مہلک امریکی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا کم از کم ہماری پولیس کے پاس تو کوئی توڑ نہیں۔

صرف ڈی آئی خان واقعے کی ویڈیو دیکھیں تو دل دہل جاتا ہے کہ کس طرح ہمارے جوان ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو نچھاور کر رہے ہیں

لیکن گذشتہ 40 برسوں میں افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی میں تضادات سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا

اور نہ ہی موجودہ حالات سے سیکھنے کی کوئی توقع ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھجوانا ایک احسن فیصلہ ہے لیکن اس مسلئے کو عسکریت پسندی سے جوڑنا ایک غلط حکمت عملی تھی اور ہے۔
سرکاری ذرائع کی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ کئی دہائیوں سے افغان طالبان کے تین سے چار ہزار اہم کمانڈر اور ان کے خاندانوں نے صرف پاکستانی سفری دستاویزات حاصل کیں بلکہ ان کی اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے یہاں جائیدادیں بھی رکھی ہیں۔

اگر پاکستان واقعی افغان طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کرنا چاہتا ہے تو بہتر یہی ہوتا کہ یہاں سے کارروائی کا آغاز ہوتا نہ کہ ایسے لوگوں کے خلاف جن کی جان کو حقیقت میں اس وقت افغانستان میں خطرہ ہے۔ اس سلسلے میں تحقیقات بھی ہو رہی ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کتنا آگے بڑھتا ہے۔

احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد ولی مسعود کے ایک اہم سٹاف رکن کا جو کہ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد جان بچا کر پاکستان آ گئے تھے، گذشتہ ہفتے ایک میسج آیا جس میں انہوں نے درخواست کی کہ وہ فرانس جانے کے انتظار میں ہیں، ان کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے، جس میں توسیع نہیں ہو پا رہی۔ انہوں نے درخواست کی کہ آپ حکام سے بات کر کے انہیں سمجھائیں کہ ٹی ٹی پی والے معاملے سے ہم جیسے افغانوں کا کوئی تعلق نہیں اور ہماری جان کو حقیقت میں طالبان سے خطرہ ہے۔

یہ صرف ایک مثال ہے لیکن ایسے سینکڑوں پہلو ہیں جو غور طلب ہیں۔ پاکستان میں مقیم افغانستان کے کئی درجن صحافی اسی کشمکش میں ہیں کہ واپس جائیں تو شاید بچ نہ پائیں لیکن پاکستان میں ویزوں کی مشکلات نے انہیں شدید شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ 40 برس تو ہم نے اپنی غلط پالیسیوں کے لیے اپنے ہی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائیں

لاکھوں افغانوں کو بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے بھی مہمان بنائے رکھا لیکن اب اچانک ہم اتنے تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ بہت ہی حقیقی واقعات میں بھی انسانی حقوق کے اصولوں پر آنکھیں بند کر کے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں۔ کم از کم صحافیوں اور سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کے واقعے میں تو کوئی میانہ روی، کوئی درمیانی راستہ کوئی لچک دکھنا چاہیے۔

اب سننے میں آیا ہے کہ افغان طالبان نے مولانا فضل الرحمٰن کو افغانستان کے دورے کی باقاعدہ دعوت دی ہے تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ میری ناقص رائے میں مولانا صاحب اگر پاکستانی علما اور سیاست دانوں پر مشتمل ایک بھاری وفد بھی ساتھ لے جائیں تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا، نہ ہی عسکریت پسند کارروائیاں اس سے ختم ہوں گی۔

بنیادی طور پر آج بھی یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ

ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

ان کی نظریہ ایک ہے اور وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کئی دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ وہ کیوں کر ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کریں گے؟ ہماری ریاست کو یہی نکتہ سمجھنے میں 40 برس لگ گئے اور آج کہیں جا کر یہ بات کی جانے لگی ہے،

ورنہ تو کابل پر طالبان کے قبضے تک اچھے اور برے طالبان کی نام نہاد اصطلاحات مرکزی میڈیا پر اتنی استعمال کی گئیں کہ عام پاکستانیوں کی ایک تعداد افغان طالبان کو اپنا ہیرو سمجھنے لگی۔

اس میں قصور صرف ریاست یا میڈیا کا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا بھی ہے جنہوں نے طالبان کی فتح کو غلامی کی زنجیریں توڑنے جیسا قرار دیا۔ ہم جیسے لوگ اس وقت چیختے چلاتے رہے کہ دنیا میں افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا مقدمہ لڑنے کی بجائے ہمیں خود افغان طالبان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ

اب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا کیا جائے۔

لیکن شاید ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد دنیا ہمارے قدموں میں آ گرے گی کہ طالبان سے درخواست کی جائے کہ ان سے سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس موضوع پر لکھے گئے گذشتہ کچھ کالموں کی سطور آپ سے شیئر کرتا ہوں، ان الفاظ کے ساتھ کہ ان میں کچھ تحاریر کے بعد فون کر کے کہا گیا کہ ’ہاتھ ہولا رکھیں، آپ کے خدشات اپنی جگہ لیکن طالبان اب بدل چکے ہیں۔‘ وہ بدل چکے ہیں لیکن اس لحاظ سے کہ پہلے دنیا افغان طالبان کو ہماری ’سٹریجک ڈیپتھ‘ کہتی تھی

لیکن آج ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی ’سٹریٹجک ڈیپتھ‘ بن چکی ہے۔

‎حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھ کر معاملات کو ہر ممکن حد تک سنبھالنے کی کوشش کی جائے، لیکن ہم گذشتہ ایک ماہ سے عالمی طاقتوں کو یہ لیکچر دینے میں مصروف ہیں کہ طالبان کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے؟

ساتھ میں کبھی طالبان کی حکومت کو کثیر النسلی بنانے کے وعدے کر رہے ہیں تو کہیں تاجکوں سے طالبان کی صلح کروانے کی۔

‎وزیراعظم سمیت اہم حکومتی وزرا کے بیانات سے اس وقت یہی جھلک رہا ہے کہ

ہمیں اس وقت اپنے گھر کی فکر کی بجائے افغانستان میں طالبان حکومت کے مستقبل کی زیادہ فکر ہے

افغان طالبان اپنی حکومت بنا چکے۔ ان کا اپنا فل ٹائم وزیر خارجہ موجود ہے۔ اس لیے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس بات کو ترجیح دیں کہ طالبان دنیا کے سامنے اپنا کیس خود لڑیں۔

‎وزیراعظم جتنا جلدی یہ ذہن نشین کر لیں کہ طالبان کی وکالت ہمیں اور خود طالبان کے لیے آگے جا کر نقصان دہ ثابت ہو گی اتنا ہی دونوں کا فائدہ ہو گا۔

طالبان کی فتح کو افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑنے کے مترادف قرار دینا ہو، حقانیوں کو پشتون قبیلہ بنانا ہو یا فیک ویڈیو کے حقائق جنرل اسمبلی کی تقریر میں پیش کرنا ہو یا پھر طالبان کے لیے حمایت کو پشتون ولی سے جوڑنا اور اس سے پہلے ریپ اور خواتین جیسے معاملات پر ان کے کمنٹس ہوں۔

آنکھیں بند کر کے شادیانے بجانا الگ بات ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ سارے بیانات عالمی منظرنامے پر پاکستان کے بیانیے کے لیے بظاہر نقصان دہ ثابت ہوئے۔ بین الاقوامی جریدوں کے مضامین ہوں یا پھر غیرملکی صحافیوں سے ہونے والی افغانستان کے معاملات پر گفتگو، زیادہ فوکس میں عمران خان صاحب اور ان کے کچھ وزرا کے انٹرویوز اور بیانات ہی رہتے ہیں۔

پاکستان کے کردار کے حوالے سے ایسے ہی سوالات ہمارے سامنے رکھے جاتے ہیں، جن کا جواب حکومت وقت کے لیے دینا ہر لحاظ سے انتہائی آسان ہے۔ مثلاً کیا طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد پاکستان میں بھی شدت پسند بڑھے گی؟

اگر دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھتی ہے تو ریاست پاکستان اس سے نمٹنے کے لیے کتنی تیار ہے؟

ساتھ میں یہ بھی کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے ان کی تشویش میں کمی لانے کے لیے طالبان پر کتنا دباؤ ڈال سکتا ہے؟ یا سال ہا سال سے چلا آ رہا یہ سوال کہ کیا پاکستان طالبان خصوصاً حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتا آیا ہے؟

 

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے