امریکہ قیدیوں کی رہائی کے نئے معاہدے کے لیے سرگرم، غزہ پر اسرائیلی حملے جاری
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ پیر کو اسرائیلی اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے یورپ کے دورے پر روانہ ہوئے جس کے دوران فائر بندی اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدہ ہونے کے امکانات کا ظاہر کیے گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے اسرائیلی فوجی رہنماؤں سے غزہ پر جاری جنگ کی شدت کو کم کرنے پر بات چیت کی ہے۔
تاحال دو ماہ سے زیادہ کی تباہ کن بمباری کے بعد غزہ کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
شمالی غزہ میں شدید بمباری کے بعد یہاں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ امدادی کارکن اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے نیچے جان سے جانے والوں اور زندہ افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔
دباؤ بڑھ رہا ہے کیوں کہ اسرائیل کے قریبی اتحادی سمجھے جانے والے ممالک فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے بھی فائر بندی کے عالمی مطالبات میں اپنی آواز شامل کی ہے۔
ادھر سفید پرچم لہراتے ہوئے اسرائیلی مظاہرین مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے حکومت سے حماس کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ مطالبہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ’غلطی سے‘ غزہ میں قید اپنے ہی تین اسرائیلی شہریوں کی موت کے بعد زور پکڑ گیا ہے۔
امریکی حکام نے بارہا غزہ میں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن پیر کو اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’یہ اسرائیل کی اپنی کارروائی ہے، میں یہاں وقت یا شرائط لکھوانے کے لیے نہیں آیا۔‘
امریکہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں فائر بندی کے مطالبے کو ویٹو کر چکا ہے اور سامان حرب کی کمک مسلسل اسرائیل پہنچا رہا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عرب ممالک کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ منگل تک موخر کر دی ہے جس میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فلسطینیوں تک رسائی کی اجازت دینے کے لیے ’جنگ‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ مذاکرات اس لیے ہو رہے ہیں کہ امریکہ اس قرارداد پر ’ہاں‘ میں ووٹ دے یا اس سے باز رہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اصرار کیا ہے کہ اسرائیل اس وقت تک لڑتا رہے گا جب تک کہ وہ غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ نہیں کر دیتا۔