اسرائیلی حراست سے رہائی پانے والے فلسطینی: ’وہ پوچھتے رہے حماس کے لوگ کہاں ہیں، انھوں نے میری ٹانگ کاٹ دی‘

67c14110-9dd4-11ee-b9a7-c91b9dfa91e5.jpg

غزہ سے تعلق رکھنے والے چھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیلی فوج نے تقریباً ایک ماہ کی حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا، انھیں مارا اور پیٹا گیا۔

ان میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے اُن کی دائیں ٹانگ میں گولی ماری، جسے بعد میں کاٹنا پڑا، اس سب کے باوجود اُنھیں اور دیگر کو حراست میں لے لیا گیا۔

جنگی قوانین کے تحت تمام قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا جانا چاہیے۔

تاہم اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے ترجمان نے بتایا کہ اُن کے پاس اس شخص کے دعوے سے متعلق تحقیقات کے لیے زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر تحقیقات کی جا سکیں کہ کب اور کن حالات میں یہ سب ہوا۔

اسرائیل نے ان افراد کو جمعرات 14 دسمبر کو اسرائیل سے غزہ جانے والی کریم شالوم سرحدی گزرگاہ پر رہا کیا۔

اس کے بعد ان افراد نے غزہ کے جنوب میں رفح میں محمد یوسف النجار ہسپتال میں علاج کروایا۔

اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے درجنوں سابق قیدی وہاں موجود تھے۔ جن میں سے صرف سات افراد وہ تھے کہ جنھوں نے میڈیا سے بات کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔

چار افراد ہسپتال میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی بستر پر قطار میں بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ پانچواں ان کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا۔

ان سبھی نے ہلکے سرمئی رنگ کے ٹریک سوٹ پہن رکھے تھے اور انتہائی تکلیف کے عالم میں اپنی زخمی کلائیوں کو تھامے ہوئے تھے، جن پر گہری چوٹوں اور زخم اب بھی موجود تھے۔

تاہم اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والوں میں کچھ فلسطینی ایسے بھی تھے کہ جن کے ہاتوں میں اب بھی سفید پلاسٹک کی ٹائیز یا ہتھکڑیاں موجود تھیں جو انھیں حراست میں لیے جانے کے وقت آئی ڈی ایف کی جانب سے پہنائی گئیں تھیں۔
آئی ڈی ایف کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی محمد داؤد نے کہا کہ انھیں اس لیے حراست میں لیا گیا کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے جنوب کی طرف جانے کے حکم کی پیروی کی تھی۔

انھوں نے  دُکھ بھرے لہجے میں کہا ’ہم شمال میں بیت لاہیا سے آئے تھے اور محفوظ راہداری کے ذریعے جنوب کی طرف بڑھ رہے تھے جب مُجھے حراست میں لیا گیا۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں (آئی ڈی ایف) نے ہمیں وہاں سے پکڑا، انھوں نے ہم سے پوچھ گچھ کی، یہ جاننے یا کہلوانے کی کوشش کی کہ کیا آپ حماس ہیں؟ کیا آپ اسلامی جہاد کر رہے ہیں؟‘

محمد داؤد نے مُجھے بتایا کہ انھیں 26 دن تک حراست میں رکھا گیا اور بالآخر رہا کر دیا گیا کیونکہ ’انھیں ہم سے وہ نہیں ملا شاید جس کی انھیں تلاش تھی۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے