سقوط ڈھاکا اور ہم
سقوط ڈھاکا اور ہم
عبید علی/ شاہدہ بیگم
’’یا رب لکھ دینا اگر کسی پہر مقتل میں زبردستی خط لکھوایا جائے‘‘۔
مشرقی پاکستان بخوشی لکھ کر آنے والے خوشحال شخص کی اپنے 12 اور 15 سالہ بچوں سے استدعا۔ بے بس بڑی بہن اپنے دو دودھ پیتے بچوں کے ساتھ باپ کے فیصلے کے ساتھ کھڑی تھی۔ بچوں کو علم تھا کہ یہاں سے فرار ہی میں عافیت ہے۔ راستہ طویل، پرخطر اور تکلیف دہ ہے۔ زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ جنازے کی کوئی امید نہیں۔ دوبارہ بہن، بھانجوں سے، والد سے اس دنیا میں ملاقات ہوگی یا نہیں؟ یہ یہاں زندہ بچ سکیں گے یا نہیں؟ بچوں کی ماں کو اس دنیا سے گئے ہوئے گیارہ برس ویسے ہی گزر چکے تھے۔
ڈھاکا کی امیدوں کا سورج ڈوب چکا تھا۔ غیر بنگالیوں کا قتل عام روز کا مشغلہ تھا۔ مرد خصوصاً جوان اور بچے ہر لمحے موت کا انتظار اور اس کےلیے تیار رہتے تھے۔ شامیں صرف خون آلود ہوتی تھیں۔ لٹے ہوئے لوگوں کے بچے کچھے زیورات بھی زندگی خریدنے کےلیے فروخت ہورہے تھے۔ جہاں کہیں زندگی محفوظ ہونے کی امید ہوتی، اپنے پیاروں کو وہاں بھیجنے کےلیے جمع پونجی دل کھول کر لٹائی جارہی تھی اور اس کےلیے شدید خطرات مول لیے جاتے تھے۔
بازار کوئی سا ہو، اس کے دل میں رحم نہیں ہوتا۔ تجارت کے دروازے بےبسی خرید رہے تھے۔ ایجنٹ پیسے لیتے، رات بھر اندھیرے میں پیدل سفر کرواتے۔ کہیں کشتی سے راستہ پار کرواتے۔ دن میں انجان جگہوں پر قیام کرواتے۔ کھیتوں میں خستہ حال جھونپڑیاں ہوتیں۔ یہ انسانی اسمگلروں کی مرضی تھی کہ کچھ کھلاتے یا بھوکا رکھتے۔ کھلاتے بھی تو موٹے ابلے چاول پانی میں بھگوئے ہوتے تھے جس میں کچے پیاز کے ٹکڑے ملا دیے جاتے تھے۔ پینے کےلیے راستے کا پانی۔ جان کے تحفظ کی خاطر سیاحت کے دوران ہوٹلوں میں آرام کرنے والے بچوں کا یہ سفر کتنا وزنی تھا۔ انھیں اپنی بہن، بھانجوں اور والد سے دوبارہ نہ ملنے کا خدشہ ان کے قدموں کو کتنا بوجھل کردیتا ہوگا۔ بھانجوں کے والد کی زندگی کی خبر آئے تو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ بڑے بھائی کی توجہ چھوٹے بھائی پر ہوگی جبکہ چھوٹے بھائی کی نظر بڑے کی زندگی پر ہوگی۔ عجیب سفر تھا کہ ایجنٹ دونوں کو ایک دوسرے کی نظر سے اوجھل اور فاصلے پر رکھتا۔ جسم پر ایک شرٹ اور لنگی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ ہاتھ خالی تھے۔ کچھ پیسے زیب تن لباس میں چھپا رکھے تھے تاکہ دوسرے مقام پر پہنچنے کے بعد محفوظ جگہ پہنچ سکیں۔ ایجنٹ پر اعتماد کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ خطیر پیسے کے عوض کلکتہ پہنچاتے اور پہنچنے کے بعد خیریت کا خط لکھواتے اور واپس پہنچ کر یہ خط چاہنے والوں کے حوالے کرتے اور پھر ایک اور خطیر رقم کا حصہ لیتے۔ لاش تو کسی کی نہ ملتی، راستے میں قتل ہونا معمول تھا، بدقسمتی تھی۔
زبردستی خیریت کا خط لکھوا کر مار دینا یا بیچ میں چھوڑ دینا غیر متوقع بات نہیں تھی۔ ستم بالائے ستم ان بے گناہ مقتولوں کے چاہنے والوں سے ان خطوط کے بدلے میں مزید رقم لینے والوں میں اپنے مسلمان بھی تھے۔ جان اٹکی رہتی تھی جب تک بارڈر پار مقیم احباب یا رشتے دار پیاروں کی خیریت کی تحریری اطلاع نہ بھیج دیں۔ زندگی ادھر بھی قید تھی، مگر کم از کم قتل ہونے کے خدشات نہ تھے۔ پکڑ دھکڑ تھی، جیل تھی۔ غرض ہر سانس گراں تھی۔ دنوں جانب تشویش تھی، فکر تھی، زخم کا دکھ تھا، لٹ جانے کا سانحہ تھا، مر جانے والوں کا غم تھا۔ گمشدہ کا بین تھا۔ کیا سنائیں؟ کیا سنتے سنتے جواں ہوئے ہیں ہم۔ آپ آنکھیں بند کیجئے، اپنے پیاروں کو اس کردار میں دیکھیے۔ آپ کے آنسو آپ کو بہت ہلکا کریں گے۔
ایجنٹوں کے حوالے کیے جانے والے بچوں کا 21 سالہ بڑا بھائی یہی سفر کرکے محفوظ مقام پر پہنچ چکا تھا۔ ان بچوں کے دودھ پیتے بھانجوں کا 22 سالہ چچا بھی اسی راستے بارڈر پار کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ بھانجوں کی دادی جس جگہ تھیں، وہاں بھانجوں کے والد کو ڈھونڈنے والے ہاتھوں میں بم لے کر گشت کیا کرتے تھے۔ محفوظ مقام پر ان دنوں بچوں کے بڑے بھائی اور ساکن رشتے داروں کو بذریعہ خط آگاہ کردیا گیا تھا اور وہ بھی بےچینی سے منتظر تھے۔ ادھر ان دونوں کی باری اور قسمت تھی۔ نیا ایجنٹ تھا۔
(کوت تو جاسئ… ایت تی جاسی) کدھر جارہے ہو؟ قریب ہی جارہے ہیں۔ 12 سالہ چھوٹے بھائی کا ناکام کوششش سے واپسی پر سوال پوچھنے والوں کو جواب۔ ہر طرف جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کوئی پولیس تھی نہ کوئی انصاف کا چوک۔ جانوروں کی طرح سماج کے رحم و کرم پر تھے۔ جو چاہے، جہاں چاہے، جب چاہے، جس طرح چاہے، پاکستان منتخب کرنے والوں اور ان کی اولاد کو خون میں نہلا سکتا تھا۔ ہر آنکھ میں خون اترا ہوا تھا۔ بتائے گئے راستوں میں کھیت کھلیان آتے تھے۔ سانپ، بچھو، گیڈر، کتوں کی بہتات تھی۔ سورج کی روشنی میں سفر آگ میں پٹرول ڈالنے کے مترادف تھا۔
ہوا یوں کہ جیسے ہی یہ بارڈر کراس کرنے والے تھے، وہ ایجنٹ شاید واقعی کسی مشکل میں آگیا، ورنہ پیسہ کسے اچھا نہیں لگتا۔ اکثر ایجنٹ مشکل صورت میں اپنی جان بچانے کی خاطر مسافروں کو قتل کردیا کرتے تھے اور نشانیاں مٹا دیا کرتے تھے۔ ایک جھونپڑی میں ان دونوں بھائیوں کو واپسی کے سفر کی ہدایات دی گئیں، راستے کا نقشہ سمجھایا گیا اور شاید ضروری رہنمائی کی گئی۔ ان کے ساتھ چند اور اسی عمر کے زندگی کے مسافر بھی تھے۔ ہدایات کے مطابق بڑے بھائی کی شکل بنگالی نہیں لگتی تو اس کے راستے میں قتل ہونے کا زیادہ خطرہ تھا۔ چھوٹا بھائی کا لہجہ پکڑ میں آنے کے امکانات کم تھے، اس لیے اسے کم خطرہ تھا۔ دونوں بھائیوں کی واپسی کے سفر میں دس گھنٹے سے زائد کا وقفہ تھا۔ بچے اپنے والد کے دیے گئے پیسوں کا پوچھ نہیں سکتے تھے، نہ بارڈر کراس کرانے کا شکوہ۔ کیوں کہ اس کا نتیجہ صرف ان کا قتل تھا۔ خنجر ان کو سوال کرنے پر دکھا دیے گئے تھے۔
بہرکیف بوجھل زندگی کے اس نئے سفر میں آگے بھی موت ناچتی نظر آتی اور پیچھے بھی سایے کی طرح تعاقب کرتی۔ زندگی بوجھ تھی صرف بوجھ، اور اوپر سے پیاروں کی فکر کا سینے پر ایک پہاڑ۔ مستقبل سیاہ ترین نظر آتا تھا۔ ان بہادر بچوں کا حوصلے کے ساتھ اکیلا سفر دو راتوں اور تین دن پر مشتمل تھا۔ راستے کے لہلہاتے کھیتوں سے کچھ کھانے کےلیے خدا دے ہی دیا کرتا تھا۔ کان کے اوپر بیڑی (سگریٹ نما خاکی بتی) رکھے، کان میں گول سکہ پھنسائے لنگی کو دوبارہ اٹھا کر کمر میں کھونس کر راستہ کاٹ رہے تھے۔ بھیس بدل کر بنگالی مزدور ہونے کا رنگ دینا وقت کا بدترین ستم تھا۔ خونخوار لوگوں سے مڈبھیڑ اگر ہوجاتی اور ان کو شک گزرتا تو مادری زبان کا لہجہ جانچنے کی خاطر دور سے چلا کر وہ پوچھتے کوت تو جاسی؟ ایت تی جاسی (کدھر جارہے ہو؟ قریب ہی جارہے ہیں)۔ لہجہ، حلیہ اور خوف جانچ لیا جاتا۔ بہادری کے ساتھ بچوں نے موت کی وادی کا رات میں لمبا اور پیدل سفر مکمل کیا۔
ادھر ڈھاکا سے دریا کے اس پار سیدپور میں والد اور بہن خیریت سے پہنچنے کی اطلاع سننے کےلیے بیتاب تھے۔ ادھر بچوں کے بڑے بھائی اور رشتے دار بارڈر کے اس طرف بے چین۔ خط رابطے کا واحد ذریعہ تھا اور ہاتھ کی لکھائی و جملوں سے شناسائی سب کچھ تھا۔ اچانک ایک دن گرد وغبار میں لپٹا تھکن سے چور چھوٹا بیٹا گھر پہنچا تو گھر والوں کو اطمینان نصیب ہوا، لیکن اس کے ساتھ جانے والے بڑے بھائی کے انتظار کی شدت میں ابال آگیا۔ اگر کوئی اس راستے میں مار دیا جائے تو نہ لاش ملتی، نہ تدفین، نہ جنازہ۔ کیسا کڑا امتحان تھا۔ کیسی سخت سزا تھی۔ کیسی بے یاری و مددگاری تھی۔ وقت گزرتا گیا اور بڑا بھائی بھی رات گیارہ بجے زندہ سلامت پہنچ گیا۔ یہ قبرستان میں جنگ کے دوران ہماری ایک اور عید تھی۔
لوگوں نے بہت سخت اور کئی سو گنا مشکل حالات کا سامنا کیا، مقابلہ کیا۔ آج اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا رکھا ہے مگر کچھ آج بھی کیمپوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اللہ رب العزت پاکستان کی لاج رکھ لے۔ (آمین)