اے پی ایس حملے کے نو سال: ’ہمارے گھر میں کوئی ہنستا نہیں‘
’آرمی پبلک سکول واقعے کے بعد ہم سمجھتے تھے کہ اب شدت پسندی ختم ہوجائے گی۔ کوئی ماں بھی مزید نہیں روئے گی اور کسی باپ کی نسل کشی نہیں کی جائے گی اور کچھ حد تک کنٹرول بھی رہا لیکن اب دوبارہ ہمیں خوف ہے۔‘
یہ کہنا تھا 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول واقعے میں مارے جانے والے نہم کلاس کے 15 سالہ طالب علم محمد علی کی والدہ رعنا گل کا جن کو خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافے پر تشویش ہے۔
آج اے پی ایس حملے کے نو سال پورے ہو گئے لیکن اس حملے کی گونج اب بھی لوگوں کی دلوں اور ذہنوں میں نقش ہے۔ اس حملے میں کم از کم 134 سکول کے بچے مارے گئے تھے۔
رعنا گل نے روتے ہوئے اپنے اکلوتے بیٹے محمد علی کے بارے میں بتایا کہ ’اس وقت ہماری فیملی کے سارے بچے کسی اور سکول میں پڑھتے تھے لیکن ہم نے حفاظت کی غرض سے ان کو اے پی ایس میں داخل کروایا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی تھی کہ میرا بچہ میرے گھر میں یا اپنے سکول میں محفوظ ہے لیکن وہی سکول میرے بیٹے کی مقتل گاہ بن گیا۔ میرا بیٹا 15 سال کا بچہ تھا لیکن اس کا جنازہ بہت بھاری تھا۔ ہمیں پتہ ہے کہ کیسے ہم نے یہ بھاری جنازہ اٹھایا ہے اور کیسے ہم نے ان کو قبر میں اتارا ہے۔‘
رعنا گل نے ملک میں جاری شدت پسندی کے لہر کے حوالے سے بتایا کہ ’اے پی ایس کے بعد حکومت حرکت میں آئی تھی اور کچھ اقدامات لیے تھے اور اس کے کچھ نتائج بھی سامنے آئے تھے لیکن اب دوبارہ یہ واقعات شروع ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں ایک گھریلوں خاتون ہوں لیکن اس ملک کے بچوں اور جوانوں کی خاطر میں رمضان میں بھی عدالتوں کی چکر کاٹ چکی ہوں اور میرا صرف یہی مقصد تھا کہ مزید کوئی بچہ یا جوان نہ مرے اور کسی والدہ کی گود نہ اجڑے۔‘
رعنا گل کے مطابق ’ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی بیخ کنی پہلے ہونے چاہیے اور ہمیں کسی واقعے کا انتظار کیے بغیر شدت پسندی کا خاتمہ کرنا چاہیے کیونکہ اب ہمیں دوبارہ خوف لاحق ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان مزید اتنے بھاری جنازے نہیں اٹھا سکتا۔ یہ ہمیں پتہ ہے وہ کتنے بھاری جنازے۔ مائیں بغیر چادر اور جوتوں کے بھاگ رہی تھیں۔ ہمارے گھر میں کوئی ہنستا نہیں اور ہم محمد علی کی آواز کے لیے ترس گئے ہیں۔‘
اے پی ایس حملے کے بعد پاکستان فوج کی جانب سے خیبر پختونخوا میں مختلف فوجی اپریشن بھے کیے گئے اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے تھے۔
تاہم صوبے میں افغانستان میں افغان طالبان کے آنے کے بعد شدت پسندی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے اور صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق رواں سال جنوری سے لے کر اب تک مجموعی طور 800 سے زائد شدت پسندی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں سال کے مقابلے میں گذشتہ سال ملک میں 365 شدت پسندی کے واقعات پیش آئے تھے۔
پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے شدت پسند پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں ملوث ہیں اور شدت پسندی کے لیے وہ افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی چند روز قبل شدت پسندی کا ایک بڑا واقعہ سامنے آیا تھا اور ایک فوجی کمپاؤنڈ پر حملے کے نتیجے میں 23 فوجی جان سے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ اس حملے کی مذمت کریں اور اس واقعے کی تحقیقات میں مدد کریں تاہم اس بارے میں افغان طالبان کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
شدت پسندی میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟
مشتاق یوسفزئی سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نےبتایا کہ ’اے پی ایس حملے کے بعد ’ضرب عضب‘ کے نام سے آپریشن کیا گیا تھا اور اس میں شمالی اور جنوبی وزیرستان سے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا تھا لیکن وہ افغانستان فرار ہو گئے تھے۔‘
مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات شروع کیے تھے لیکن اس کے لیے باقاعدہ تیاری نہیں کی گئی تھی اور اس کا فائدہ ٹی ٹی پی کو ہی ہوا۔‘
ان کے مطابق ’سکیورٹی فورسز کی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کے دوران چھ ہزار سے آٹھ ہزار تک ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان داخل ہوئے تھے۔’
مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد افغان طالبان پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں تاہم افغان طالبان کی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ 20 سے 25 ہزار جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’افغان طالبان پاکستان کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کی بہت ضروریات پاکستان سے پوری ہوتی ہیں جبکہ لاکھوں افغان پناہ گزین بھی یہاں رہ رہے ہیں۔’
اس مسئلے کا حل کیا ہو گا؟
اس سوال کے جواب میں مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ ’پاکستان کے معاشی حالات اب ایسے ہیں کہ بڑا اپریشن نہیں کر سکتے جبکہ وہ افغانستان میں بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں وہ مختلف علاقوں میں موجود ہے۔‘
ان کے مطابق ’میرے خیال میں تو حل یہی ہے کہ مضبوط گارنٹر کی موجودگی میں ٹی ٹی پی سے بات کرنی چاہیے اور وہ پاکستان آ کر پاکستانی قوانین کو ماننے کا عزم کریں۔’
ان کے بقول: ’مسئلہ اب یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے پالیسی بدلی ہے اور اب علاقوں پر قبضہ نہیں بلکہ بارڈر کراس کر کے یہاں حملے کرتے ہیں اور واپس فرار ہو جاتے ہیں اور یہ گوریلا جنگ دیگر تنازعات کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔‘