ارشد شریف کیس میں کینیا کے اعلیٰ حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں: پاکستان

251631-2030250080.jpg

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ صحافی ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے کینیا کے انتہائی اعلیٰ سطحی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔

رواں برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کے دو خصوصی نمائندوں نے پاکستان اور کینیا کی حکومتوں کو لکھے گئے خطوط میں اس کیس پر کسی بھی ’سنجیدہ تحقیقات میں تعاون کرنے میں ناکامی‘ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

ہم نے اس خط کے تناظر میں دفتر خارجہ سے بات کی تو جمعے کو دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان ارشد شریف کیس میں کینیا کے انتہائی اعلیٰ سطحی حکام سے رابطے میں ہے۔

اقوام متحدہ کے خط میں مزید کہا گیا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے ماہرین کے خطوط سے بالکل واضح ہے کہ کینیا اور پاکستان دونوں کی جانب سے اس صحافی کے قتل کے صحیح حالات کا تعین کرنے اور ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کی خواہش کا واضح فقدان ہے۔

’اس مرحلے پر کینیا میں ابتدائی تحقیقاتی انتہائی ناقص ہیں اور پاکستانی سکیورٹی سروسز کی تحقیقات بالکل یک طرفہ رہی ہیں۔‘

خط کے مطابق: ’اس قتل میں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے پیش نظر آزاد بین الاقوامی تحقیقات ہی حقائق کا تعین کر سکیں گی۔‘

اس خط کی نقول کینیا اور پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات کو بھی بھیجی گئی تھیں۔

رواں برس اپریل میں ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے سوشل میڈیا پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے اپنے شوہر کے قتل کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اس ضمن میں صدر پاکستان کو خط بھی لکھا۔

جویریہ صدیق نے ارشد شریف قتل کیس میں کینیا کے پولیس اہلکاروں کے خلاف کینیا ہائی کورٹ میں کیس بھی دائر کر رکھا ہے جس میں گذشتہ ہفتے جج نے پولیس اور دیگر ملزمان کی طرف سے جویریہ کی درخواست پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے تمام فریقین کو تفصیلی جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔

ہم نے جویریہ صدیق سے اقوام متحدہ کے خط کے معاملے پر بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ’ارشد شریف کے لیے انصاف میں دلچسپی دکھانے والوں میں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے پاکستان اور کینیا کی حکومتوں کو خط بھی لکھے۔

’اس کے جواب میں پاکستانی حکومت نے بھی ان کو خط لکھا جو پبلک دستاویز ہے اور اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت خود اپنے شہری کے انصاف کے لیے وہ دلچسپی نہیں دکھا رہی جو انہیں دکھانی چاہیے اور انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ارشد شریف کا جو قتل ہے وہ اس لیے نہیں ہوا کہ وہ تحقیقاتی صحافی یا اینکر تھے۔‘

جویریہ نے الزام عائد کیا کہ کینیا میں مقدمے کا آغاز تو ہو گیا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے کینیا پر سفارتی دباؤ نہیں ڈالا جا رہا اس لیے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا کہ ہم مجرمان کو سزا دلوانے کے منتظر ہیں لیکن کسی طور پر کچھ نہیں ہو رہا۔

’اسی طریقے سے سپریم کورٹ میں چھ مہینے سے ارشد شریف کیس کی سماعت نہیں ہوئی۔ یہ بھی انصاف دینے والوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اقوام متحدہ کے نمائندوں نے خط میں چھ سوال پوچھے لیکن پاکستان نے کسی سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔‘

حکومت پاکستان کا اقوام متحدہ کے خط کا جواب

حکومت پاکستان نے بذریعہ مستقل مشن جنیوا خط کے جواب میں لکھا کہ ’حکومت پاکستان ارشد شریف کے افسوس ناک قتل کی پیروی کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے تاکہ انصاف کی فراہمی ہو اور جو لوگ اس گھناؤنے فعل کے ذمہ دار پائے جائیں ان کا محاسبہ کیا جائے۔

’حکومت اس کیس کی پیچیدگی پر اقوام متحدہ کی توجہ مبذول کروانا چاہتی ہے چونکہ یہ جرم پاکستان کی حدود سے باہر کینیا میں ہوا تھا۔

’حکومت کینیا میں متعلقہ حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ کینیا کی حکومت کا تعاون مقدمے کی مجرمانہ تحقیقات کے جلد از جلد اختتام کے لیے اہم ہے جس کی سرزمین پر ارشد شریف کے زندگی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

’ہم امید کرتے ہیں کہ کینیا اپنے ملکی قوانین اور طریقہ کار کے مطابق جاری تفتیشی عمل کو تیز کرے گا۔ اس سلسلے میں کیس پر کینیا کی حکومت کے ساتھ اقوام متحدہ کا رابطہ حوصلہ افزا ہے۔‘

اس کے علاوہ جواب میں پاکستان کی کوششوں کا ذکر کیا گیا کہ ’سپریم کورٹ نے گذشتہ برس معاملے پر ازخود نوٹس بھی لیا جس کے بعد ملکی سطح پر بھی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس نے اب تک پانچ پروگریس رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہیں۔

’تحقیقاتی کمیٹی نے کینیا پولیس افسران سے بھی ملاقات کی اس کے علاوہ اس کیس میں ملوث مرکزی مشتبہ ملزمان کو پاکستان لانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے انٹرپول کو رواں برس مئی میں خط بھی لکھا تھا۔

’تحقیقاتی عمل کو تیز کرنے کے لیے حکومت پاکستان کینیا کی حکومت کو باہمی قانونی معاونت کی بھی پیشکش کی۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے