فلسطین کے ’دو ریاستی حل‘ پر قائداعظم کے موقف میں تبدیلی ’پر نگران وزیراعظم کی انوکھی منطق

330691-1457121577.jpg

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے ’دو ریاستی‘ حل پر قائد اعظم کے موقف سے ’روگردانی‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے ذمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘

بدھ کی رات اے آر وائے نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں میزبان وسیم بادامی کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مسئلہ فلسطین پر تفصیلی گفتگو کی۔

انٹرویو کے دوران مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے۔ دوریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے یہ تجویز دے دی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جس طرح فلسطین میں ’بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟‘

انہوں نے میزبان وسیم بادامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں۔ فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں، انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟‘

کیا حماس فلسطینیوں کی ترجمان ہے؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے۔ ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔‘

بقول انوار الحق کاکڑ: ’میرے لیے ہرفلسطینی اہم ہے۔۔۔ یہ حق بھی فلسطینیوں کو دینا چاہیے کہ ان کی نمائندہ تنظیم کون سی ہے۔ میں یا باہر کے لوگ ان پر تھوپ نہیں سکتے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اور اس حوالے سے جو اسلامی دنیا کا موقف ہے، اس کا ساتھ دینا چاہے اور کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں امن ہو اور زندگی کا جو حق ہے، وہ فلطسنیوں کو ملنا چاہیے۔

انٹرویو کے دوران میزبان وسیم بادامی نے سوال کیا کہ ’جب ہم اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیا ایک طرح سے ہم اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کر رہے، جو کہ قائداعظم کے اس بیان سے روگردانی کرتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ایک ناجائز بچہ ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم اس کے خلاف نہیں جا رہے؟‘

جس پر نگران وزیراعظم نے جواب دیا: ’بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ سیاست کوئی کام کرنے (doable) کا نام ہے، اور سیاست کچھ حاصل کرنے (achievable) کا نام ہے۔ قائداعظم نے اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں، ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آ سکتی ہے، قائداعظم کی اس پوزیشن کے تبدیل ہونے کی پابندی نہیں ہے، اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے ذمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔‘

نگران وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’کوئی بھی پاکستانی حکومت سب سے پہلے پاکستانی قوم کا مفاد دیکھتی ہے۔ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ (فلسطین میں) جو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے تحت کیا اقدامات اٹھانے چاہییں اور کیا نتائج ہوں گے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔‘

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے حال ہی میں اسلام آباد میں حرمت اقصیٰ کانفرنس سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ میں اس کی جارحیت رک سکتی ہے۔ اس حوالے سے جب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے۔

بقول انوار الحق کاکڑ: ’کسی ایک صاحب کے کہنے پر اگر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل کو اس پوزیشن لینے پر پچھتا رہے ہوں۔ میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کی صورت میں آنے والا ہے، ان کو یہ عمل کرنے دیں۔ دھمکی دینی ہے، جنگ کرنی ہے، گفتگو کرنی ہے تو یہ فیصلہ وہاں ہو لینے دیں۔‘

سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر ’سرپرائز‘ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد مارے گئے جبکہ کئی افراد کو قید کرلیا گیا۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں 18 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، غزہ کے بیشتر علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے غزہ کی صورت حال پر آرٹیکل 99 کا اطلاق کرکے قومی سلامتی کا اجلاس بھی بلوایا تاہم سیز فائر کی قرارداد امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے باعث منظور نہ کی جاسکی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے