آرٹیکل 370: کشمیر کی نیشنل کانفرنس ’طویل لڑائی‘ کو تیار

1200-675-20134981-thumbnail-16x9-pol.jpg

جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فیصلے کو برقرار رکھنے سے متعلق انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے پر سری نگر میں مرکزی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ لڑائی لڑنے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔

میڈیا سے گفتگو میں نیشنل کانفرنس کے ریاستی ترجمان عمران نبی ڈار نے کہا کہ ’آرٹیکل 370 کی منسوخی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ایک غیر متوقع فیصلہ ہے۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ ہمارے وکلا نے سپریم کورٹ میں جو دلائل پیش کیے ہیں، انہیں آئینی بینچ دیکھے گا اور اسی کے پیش نظر فیصلہ دے گا، لیکن جب فیصلہ آیا تو بحیثیت فریق ہمارے لیے واقعی مایوس کن تھا۔

پانچ اگست 2019 کو انڈین حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، جس کے خلاف انڈین سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

اس کیس کا فیصلہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے 11 دسمبر کو سنایا اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے پانچ اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کر تے ہوئے انڈین الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کروائیں۔

عمران نبی کو اب بھی یقین ہے کہ یہ ایک طویل لڑائی ہے اور اس میں بہتری کی امید ہے۔

انہوں نے کہا: ’نیشنل کانفرنس بحیثیت ایک جماعت آئینی طریقے سے پرامن انداز میں لڑنے اور جدوجہد کے لیے تیار ہے اور ہم اسے آگے لے کر جائیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں تو کل، ہمیں انصاف ملے گا۔‘

سری نگر کے بالائی علاقے میں عمران نبی کی رہائش گاہ سے چند میٹر کے فاصلے پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جموں و کشمیر کے ترجمان الطاف ٹھاکر کے دفتر میں جشن کا ماحول نظر آیا، جو اپنے ساتھیوں سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے خوش نظر آئے۔

میڈیا سے گفتگو میں بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا: ’ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اگر حقیقت میں ہم دیکھیں تو یہ انڈیا کی جیت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جو خواب دیکھا تھا وہ پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ پورا ہوگیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس بات کی منظوری دے دی ہے کہ جموں و کشمیر انڈیا کا حصہ ہے اور اب جموں و کشمیر کو تنازع کہنے کے لیے انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں بچا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آرٹیکل 370 نے کسی نہ کسی طرح جموں و کشمیر کو انڈیا سے الگ کر رکھا تھا کیونکہ ایک قوم کے دو پرچم نہیں ہوسکتے اور نہ ہی دو قانون، لیکن اب یہاں جموں و کشمیر میں صرف ایک پرچم اور ایک ہی قانون ہے۔‘

بقول الطاف ٹھاکر: ’سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ انڈین عوام کی فتح ہے کیونکہ انڈیا کے لوگ جموں و کشمیر کو اپنا تاج سمجھتے ہیں۔‘

کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے اس فیصلے کو افسوس ناک تو قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خاص طور پر موجودہ حالات میں غیر متوقع نہیں تھا۔

بقول میر واعظ: ’وہ لوگ جنہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر کے الحاق میں سہولت فراہم کی اور انڈیا کی قیادت کی طرف سے کیے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں پر بھروسہ کیا، انہیں شدید دھوکہ دہی کا احساس ہونا چاہیے۔ باقی لوگوں کے لیے یہ ریاست، جیسا کہ یہ اگست 1947 میں تھی، سیزفائر لائن کے درمیان تقسیم ہے اور اسی لیے یہاں انسانی اور سیاسی مسائل سر اٹھا رہے ہیں، جس کے ازالے کی درخواست ہے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے