آرٹیکل 370 خاتمہ کیس کا فیصلہ آج: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باسیوں کو اُمیدیں کم اور خدشات زیادہ
انڈین سپریم کورٹ سنہ 2019 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے کشمیری جماعتوں کی جانب سے دائر اپیلوں پر فیصلہ آج سنائے گی۔
پانچ اگست 2019 کو انڈیا میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
پارلیمان سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد انڈیا کے زیرِ اتنظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اس سال اگست اور ستمبر کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے ہنگامی بنیادوں پر سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اب جبکہ بینچ کے ایک جج جسٹس ایس کے کول دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور 15 دسمبر سے سپریم کورٹ میں سرمائی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں اس لیے عدالت نے حتمی فیصلہ 11 دسمبر کو سنانے کا اعلان کیا۔
انڈین سپریم کورٹ میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت اس کیس کا جو پہلو سب سے اہم رہا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو بحث سے خارج کر دیا تھا جس کے مطابق ’دفعہ 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور امن اور ترقی کا دور شروع ہو گیا ہے۔‘
مودی حکومت کے بیان حلفی کے جواب میں عدالت نے کہا تھا کہ ’دفعہ 370 کو ہٹانے کے آئینی اور قانونی جواز پر بحث ہو گی نہ کہ اس کے سیاسی نتائج پر۔‘
کشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان، انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل ان آئینی درخواستوں میں سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کیا کشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمان کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟
واضح رہے کہ اس تاریخی فیصلے سے ایک سال قبل ہی کشمیر میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے حمایت واپس لے کر حکومت گرا دی تھی اور جموں کشمیر میں براہ راست صدارتی راج نافذ ہو گیا تھا۔
محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے ایکس کی ایک پوسٹ میں قیاس کیا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے سرکاری فیصلے کو جائز قرار دے کر حکومت کو جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے اور جمہوری عمل بحال کرنے کا روایتی فیصلہ سنائی گی۔
تاہم اس حوالے سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باسیوں کو امیدیں بھی ہیں اور خدشات بھی اور اس فیصلے سے یہاں کی سیاسی جماعتوں کی دیرینہ امیدیں پوری بھی ہو سکتی ہیں اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم بھی۔
کیا عدالت سے رعایت مل سکتی ہے؟
واضح رہے کہ مودی حکومت کے سنہ 2019 کے پارلیمانی فیصلے کو چیلنج کرنے والے سبھی درخواست گزاروں نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا ’کسی ریاست کا درجہ گھٹا کر اسے مرکزی انتظام والا خطہ قرار دینے اور اس کی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اختیار اُس ریاست کا ہے یا پارلیمنٹ کا؟‘
یہ بہت باریک اورتکنیکی بحث ہے، جس کے دوران انڈین حکومت نے استدلال پیش کیا ہے کہ جب ریاست میں منتخب حکومت کے بجائے صدارتی راج نافذ ہو تو پارلیمنٹ ریاست کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لے سکتی ہے۔
کیس کے اسی پہلو نے یہاں کے سیاسی حلقوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ایک ماہر قانون دان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کہنا مشکل ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا لیکن میرا گمان ہے کہ کوئی نہ کوئی رعایت ملے گی۔‘
اس رعایت کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ مودی حکومت کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرے، لیکن جہاں تک 370 کا مسئلہ ہے، وہ شاید کبھی واپس نہیں ملے گا۔
دفعہ 370 انڈین آئین میں شامل کیسے ہوا اور پھر اس کا خاتمہ کیوں ہوا؟
اگست 1947 میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت جموں کشمیر میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور انھیں انڈیا کے ساتھ الحاق میں تحفظات تھے۔
تاہم جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کی سرحدوں پر جنگ چھِڑ گئی اور دو تہائی کشمیر پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا تو مہاراجہ نے نہ صرف انڈین فوج سے مدد طلب کی بلکہ تین شرائط پر انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
الحاق کے مطاق جموں کشمیر کی کرنسی، دفاع اور مواصلات انڈین کنٹرول میں ہوں گے جبکہ مقامی قانون سازی، ٹیکس اور دوسرے سبھی امور پر کشمیریوں کا اختیار ہو گا۔
جموں کشمیر کا سِول حکمران ’وزیراعظم‘ جبکہ گورنر ’صدرِ ریاست‘ کہلایا جانے لگا۔
لیکن 1953 میں کشمیر کے پہلے ’وزیراعظم‘ شیخ محمد عبداللہ کو اُس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے معذول کر کے جیل بھیج دیا اور کشمیر میں دلّی کے حامی بخشی غلام محمد کو حکمران بنا دیا۔
کشمیر میں افراتفری کا عالم تھا اور اسی بیچ جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی آرڈر کے ذریعہ انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا۔
اس دفعہ کے تحت جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین ہو گا، ٹیکس نظام الگ ہو گا، یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کے لیے مخصوص ہوں گی، انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھا۔
حالانکہ دیگر انڈین ریاستوں کی طرح اب جموں کشمیر کا بھی باقاعدہ گورنر اور وزیراعلیٰ تھا لیکن ایک طرح کی نیم خودمختاری تھی، جسے ہٹانے کا عزم بی جے پی نے کئی دہائیاں قبل کر لیا تھا۔
سنہ 2014 میں بی جے پی کے مرکزی رہنما نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے تو بی جے پی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ دفعہ 370 ختم کر کے ’مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے گا۔‘
چنانچہ 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے صرف دو ماہ بعد پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے ’جموں کشمیر تنظیم نو‘ کے عنوان سے بل پیش کیا جو اکثریت سے پاس ہو گیا۔
اس بل کے مطابق جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کر کے اُسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا جبکہ جموں کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا۔
تاہم یہ اعلان کرنے سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں اور سبھی سیاسی لیڈروں کو قید کر دیا گیا۔
یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہنے کے بعد زندگی بحال تو ہوئی تاہم جموں کشمیر کا آئین منسوخ کیا گیا اور وفاق کے 800 سے زیادہ نئے قوانین کشمیر میں نافذ ہو گئے۔
اس اعلان سے چند سال قبل ہی علیحدگی پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا جبکہ انڈیا نواز رہنماؤں کو بھی سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں نظر بند کیا گیا تھا۔
‘
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد چار سال
تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر میں گذشتہ چند برسوں سے حالات بظاہر پرسکون ہیں۔ آئے روز ہڑتالوں، پتھراؤ اور مظاہروں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے کیونکہ علیحدگی پسند سیاست منظر سے ہی ہٹائی گئی ہے، اس لیے سال بھر تعلیمی اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، سیاحوں کی آمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور کھیل کود کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
گذشتہ چار سال سے حکومت کے کسی بھی فیصلے پر کسی طرح کا کوئی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا اور سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک حکومت کا ’مکمل کنٹرول‘ ہے۔
سڑکوں، پُلوں اور سرنگوں کا کام تیزی سے جاری ہے اور اس دوران انڈیا نے کئی ممالک کے مندوبین کے کئی اجلاس سرینگر میں منعقد کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر اب ’علیٰحدگی پسندی اور شدت پسندی سے پاک‘ ہو گیا ہے۔
دفعہ 370 ہٹانے کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہو گی اور صرف چھ ماہ کے اندر پچاس ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کشمیری بھی انڈیا کے شانہ بہ شانہ ترقی کریں گے۔
لیکن طویل قدغنوں کے بعد جب زندگی بحال ہو گئی تو سرکاری تعیناتیوں سے متعلق ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آ گئے۔
حکومت کو کم از کم ایسی چار فہرستوں کو کالعدم کرنا پڑا جن میں کرپشن اور چور دروازے سے تعیناتی کے انکشافات ہوئے تھے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے جس گلوبل انویسٹر سَمِٹ کو نومبر 2019 میں کرنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔
تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری حکومت کو موصول ہوئی ہے اور ان پر کام ہو رہا ہے۔
اس کیس میں کئی درخواست گزاروں میں شامل نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان اور سابق جج حسنین مسعودی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پُراُمید ہیں، لیکن اگر عدالت میں ہم ہار بھی گئے تو ہم سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، شمال مشرقی ریاستوں کو جو کچھ ملا ہے وہ سیاسی جدوجہد سے ملا ہے، عدالت سے نہیں ملا۔‘
سپریم کورٹ میں کیا ہو سکتا ہے؟
سپریم کورٹ دفعہ 370 کے مقدمے کو اس سال اگست اور ستمبر میں روزانہ کی بنیادوں پر سماعت ہوئی۔ یہاں کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیس کے دوران ججوں نے سبھی دلائل تفصیل سے سُنے ہیں اور انھیں امید ہے سپریم کورٹ کشمیریوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
تاہم غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کو آئین سے ہٹانا بی جے پی کے اہم ترین نعروں میں شامل رہا ہے اور اس کے خاتمے کو بڑے پیمانے پر حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا چکا ہے۔
تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’عدلیہ پر حکومت کا اثر تو نہیں ہونا چاہیے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی تکنیکی پہلو پر یہ معاملہ اٹک سکتا ہے۔ کیونکہ اگلے سال کے الیکشن میں نریندر مودی دوبارہ کامیابی کی توقع کر رہے ہیں، ایسے میں اتنے بڑے فیصلے کی عدالت میں ہار ایک سیاسی دھچکہ بھی ہو سکتا ہے۔‘