یہود کی سپرمیسی کو چیلنج کرنے والی امریکی صحافی
یہ 27 مئی 2010ء کی حسین صبح تھی۔ امریکی حکمران طبقے کے سفید محل’’ وائٹ ہاؤس‘‘ میں رنگ برنگ پھول خوشبو بکھیر کر فضا معطر کیے ہوئے تھے۔ آج اس کے وسیع و عریض دالان میں خاصی گہماگہمی تھی۔ دراصل سفید محل کے یہودی اہلکار اپنا ایک تہوار منا رہے تھے۔ تقریب میں یہود کے دوست کئی عیسائی بھی شریک تھے۔ کسی کو اندازہ نہ تھا کہ خوشی کی اس موقع پر انوکھا واقعہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔
تقریب میں ممتاز امریکی صحافی‘ ہیلن تھامس بھی شریک تھی۔ وہ ایک میز پر دوستوں کے ساتھ بیٹھی کلام و طعام سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ یہودی ربّی (مذہبی رہنما)‘ ڈیوڈ نیسینوف اس کے پاس پہنچا۔ ڈیوڈ شوقیہ طور پر دستاویزی فلمیں بھی بناتا تھا۔ اسی لیے اس نے آج بھی وڈیو کیمرا تھام رکھا تھا۔
تب دنیا بھر میں اہل غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ترک بحری جہاز، فلوٹیلا پہ اسرائیلی فوج کے حملے پر احتجاج جاری تھا۔ حملے میں ترک تنظیموں کے نوکارکن شہید ہو گئے تھے۔ اس غیرانسانی واقعے کے خلاف وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرے ہوئے۔حقیقتاً کئی برس بعد پوری دنیا میں اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج ہوا اور اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے ایک یہودی رکن‘ بارنی فرینک نے یہ کہہ ڈالا ’’مجھے اپنے یہودی ہونے پر ندامت ہے۔‘‘
یہ تھی صورت حال جب ربّی ڈیوڈ صحافی ہیلن کے پاس پہنچا۔ تب دنیا کا ہر حساس انسان اسرائیلی حکومت کے ناروا اقدام پر چراغ پا تھا۔ ڈیوڈ نے کیمرا ہیلن پر مرکوز کیا اور پوچھا ’’آپ اسرائیل کے متعلق کچھ کہیں گی؟ ہم ہر کسی سے اسرائیل کے متعلق رائے لے رہے ہیں۔‘‘
ہیلن: انہیں (یہود کو) چاہیے کہ وہ خدا کے لیے فلسطین کی جان چھوڑیں اور وہاں سے نکل جائیں۔
ڈیوڈ: اوہ! اسرائیل کے متعلق آپ اچھی رائے نہیں دے سکتیں؟
ہیلن: یاد رکھیے‘ انہوں (یہود) نے اُن (فلسطینیوں) کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ (فلسطینی) متاثرہ لوگ ہیں۔ انہیں (یہود کو) معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جرمنی نہیں‘ یہ پولینڈ نہیں۔
ڈیوڈ: مگر وہ (یہودی )فلسطین سے نکل کرکہاں جائیں؟ وہ کیا کریں؟
ہیلن: اپنے گھر جائیں۔
ڈیوڈ: ان کا گھر کہاں ہے؟
ہیلن: پولینڈ اورجرمنی۔
ڈیوڈ: گویا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ یہودی پولینڈ اور جرمنی واپس چلے جائیں؟
ہیلن: یا امریکہ اور کہیں بھی! جو لوگ صدیوں سے اس جگہ (فلسطین) رہ رہے ہیں‘ انہیں وہاں سے نکالنے کی کیا تْک ہے؟ آپ خود ہی سوچیے۔
یہ ساری بات چیت وڈیو کیمرے میں محفوظ ہو گئی۔ ربّی ڈیوڈ نے کچھ عرصہ توقف کے بعد فلمائی گئی یہ گفتگو6جون کو انٹرنیٹ پر جاری کر دی اور… اور امریکہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ یہ ایسا زلزلہ تھا جو دنیا والوں کے سامنے امریکی حکومت اور معاشرے کی کئی جہتیں آشکارا کر گیا۔
دراصل ہیلن تھامس معمولی ہستی نہیںتھی‘ وہ امریکہ کی واحد اخباری نمائندہ (رپورٹر) تھی جس کا نام وائٹ ہاؤس پریس بریفنگ کے کمرے میں ایک کرسی پر کندہ تھا۔ وہ پہلی خاتون ہے جو صحافیوں کی ایلیٹ تنظیم‘ وائٹ ہاؤس کوریس پونڈینٹ ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئی۔ اسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں طویل ترین عرصہ کام کرنے والی اخباری نمائندہ تھی۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک دلیر اور کسی جابر سے نہ دبنے والی صحافی تھی۔ وہ امریکی صدور سے ایسے تلخ مگر سچے سوال کرتی کہ وہ پریشان ہو جاتے۔ ہیلن کے سوالات کی کاٹ اور تیزی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے۔
ایک بار ممتاز امریکی رسالے‘ یو ایس ٹو ڈے کے بانی‘ ال نیوہرتھ نے کیوبا کے تاریخی رہنما‘ فیڈل کاسترو سے سوال کیا ’’آپ کبھی امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے۔ آپ کو اس پر سب سے زیادہ خوشی کس بات پہ ہے؟
کاسترو نے کہا: ’’میں یہ سوچ کر خوش ہو جاتا ہوں کہ مجھے اخباری کانفرنس کے دوران ہیلن کے سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘‘
ربّی ڈیوڈ سے باتیں کرتے ہوئے بھی ہیلن نے حسب روایت سچائی کو مدنظر رکھا۔ اس نے سوالات کے وہی جواب دیے جن سے پوری دنیا واقف ہے۔ لیکن امریکی حکومت اور یہودی کھرب و ارب پتیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے امریکی صحافی‘ سیاست داں، سرکاری افسر وغیرہ اس تلخ سچائی کو ہضم نہ کر پائے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے ہیلن کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا۔ یوں لگا جیسے اس سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہو گیا… جیسے اس نے کوئی بڑا گناہ کر ڈالا ۔
ہیلن تھامس کے والدین لبنان سے ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔وہ وہیں 1920 ء میں پیدا ہوئی۔نو بچوں میں ہیلن کا ساتواں نمبر تھا۔ ہیلن نے روایتی تعلیم پائی اور 1942ء میں وائن سٹیٹ یونیورسٹی میں انگریزی مضمون میں گریجویشن کر لی۔ وہ عیسائی فرقے‘ یونانی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ 1955ء کے بعد ہیلن وفاقی محکموں مثلاً محکمہ تعلیم‘ صحت‘ ایف بی آئی وغیرہ کے متعلق رپورٹنگ کرنے لگی۔
جنوری 1961ء میں یو پی آئی نے ہیلن کو وائٹ ہاؤس میں اپنا نمائندہ مقرر کر دیا۔ اسی حیثیت سے وہ ایک افسانوی شخصیت کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی خصوصیت تھی کہ وہ ہر صدارتی پریس کانفرنس کے اختتام پر ’شکریہ جناب صدر‘ ضرور کہتی تھی۔
1975ء میں اْسے یو پی آئی خبررساں ایجنسی نے وائٹ ہاؤس میں اپنا بیورو چیف بنا دیا۔ اس حیثیت سے ہیلن پھر ہفتہ وار کالم ’وائٹ ہاؤس کے پچھواڑے‘ لکھنے لگی۔ اس کالم میں صدارتی انتظامیہ کی خوبیوں و خامیوں اور کارگزاری کا تذکرہ ہوتا ۔ اس وقت تک ہیلن واحد صحافی بن چکی تھی جس کی وائٹ ہاؤس بریفنگ کمرے میں اپنی کرسی تھی‘ بقیہ کرسیاں پہلے آئیے‘ پہلے پائیے کی بنیاد پر صحافیوں کو ملتی تھیں۔
2000ء ہی میں امریکیوں کو اپنی تاریخ کے ایک انتہائی جنگجو صدر‘ جارج بش جونیئر سے پالا پڑا۔ موصوف کی جنگجویانہ فطرت ہیلن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اسی لیے بش انتظامیہ اس کی شدید تنقید کا نشانہ بن گئی۔ہیلن کو1967ء سے یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ صدارتی پریس کانفرنس میں وہی سب سے پہلا سوال کرتی تھی۔ لیکن بش جونیئر نے اس بے مثال روایت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ یہی نہیں‘ اس نے ہیلن کی نشست صف اول سے اٹھوا کر پیچھے رکھوا دی۔
مارچ 2006ء میں ہیلن نے چار سال بعد صدر بش سے پہلا سوال کیا۔ یہ عراق جنگ کے متعلق تھا اور اس نے دریافت کیا ’’جناب صدر‘ عراق پر حملہ کرنے سے ہزاروں عراقی اور امریکی مارے گئے جبکہ ہزاروں عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
حملے کی جو بھی وجوہ بتائی گئی تھیں‘ وہ ایک ایک کر کے جھوٹی ثابت ہوئیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر آپ نے جنگ کا آغاز کیوں کیا؟ آپ کا کہنا ہے کہ وجہ تیل نہیں… اسرائیل بھی درمیان میں نہیں تھا‘ پھر آخر حملہ کیوں ہوا؟‘‘ اس سوال پر صدر بش خاصا گھبرا گیا لیکن پھر وہی پرانا راگ الاپنے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ضروری تھی‘ صدام حسین خطرہ بن گیا تھا‘ وغیرہ وغیرہ۔
ہیلن نے پھر 18 جولائی کے دن بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تب اسرائیلی لبنان میں وحشیانہ طور پر اپنی طاقت اور خباثت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف تھے۔ ہیلن نے وائٹ ہاؤس پریس بریفنگ میں بہ بانگ دہل کہا ’’امریکہ اتنا بے دست و پا نہیں‘ وہ چاہے تو ابھی لبنان میں بمباری رکوا سکتا ہے۔ ہمیں اسرائیلیوں پر اتنا کنٹرول حاصل ہے۔ ہماری وجہ سے تمام لبنانیوں اور فلسطینیوں کو سزا مل رہی ہے۔‘‘
جواباً وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری‘ ٹام شیلز نے کہا ’’مادام! حزب اللہ کا نقطہ نظر پیش کرنے پر شکریہ۔‘‘ ہیلن کے ان جملوں پر بھی خاصا ہنگامہ ہوا۔ یہودیوں کے چمچوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا مگر غیر جانب دار دانش وروں نے اظہارِحق پر ہیلن کو سراہا۔
اوباما حکومت آئی‘ تو ایک بار پھر ہیلن کی نشست سب سے آگے آ گئی۔ صدر اوباما اپنی افتتاحی پریس کانفرنس سے قبل ہیلن سے ملا اور اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ لیکن بے خوف اور نڈر ہیلن کھل کر سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی۔ اسی افتتاحی پریس کانفرنس میں ہیلن نے نئے صدر سے سوال کیا ’’جناب صدر! مشرق وسطی میں ایٹم بموں سے لیس ایک ایٹمی طاقت موجود ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟‘‘صدر اوباما بھی دیگر امریکی صدور کے مانند آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا۔ یاد رہے‘ اسرائیلی ایٹمی بموں کے متعلق امریکی پالیسی یہ ہے کہ ان کی موجودگی تسلیم کی جائے نہ انکار کیا جائے۔
اپریل 2010ء میں ہیلن نے افغانستان کے مسئلے پر دوران پریس کانفرنس صدر اوباما کو حواس باختہ کر دیا۔ ہیلن نے کہا ’’جناب صدر! آخر آپ کب افغانستان سے نکلیں گے؟ آپ وہاں کیوں انسانوں کو قتل کروا رہے ہیں؟ یہ خونی جنگ جاری رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ اور خدا کے لیے ہمیں ’بش ازم‘ کا فلسفہ نہ پڑھائیے… کہ اگر ہم وہاں نہ پہنچے‘ تو وہ یہاں آ جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد یہودی ربّی والا واقعہ رونما ہو گیا۔عام خیال یہ ہے کہ اپنی رائے یا اظہار کی آزادی جتنی امریکہ میں ہے‘ وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ لیکن ہیلن کا معاملہ سامنے آتے ہی یہ تصوّر خاک میں مل گیا۔ ہیلن نے ربّی کو جو کچھ کہا‘ اسے سچائی کے بجائے یہود دشمنی سے تعبیر کیا گیا۔ چونکہ امریکہ میں بیشتر ٹی وی چینل‘ اخبارات‘ رسائل وغیرہ یہود کے قبضے میں ہیں لہٰذا ذرائع ابلاغ یا میڈیا نے ہیلن کے خلاف تیزوتند مہم کا آغاز کر دیا۔ حتیٰ کہ اْسے چڑیل‘ بچ(کتیا) اور دیگر گھٹیا القابات سے نوازا گیا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان‘ رابرٹ گبس نے ہیلن کے جملوں کو ’’موجب آزار اور قابل مذمت‘‘ قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس میں اخباری نمائندوں کی تنظیم نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہیلن کی کتب شائع کرنے والے اداروں نے اعلان کیا کہ اب وہ اس کی کتب شائع نہیں کریں گے۔
ہیلن نے واشنگٹن میں ایک اسکول کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنی تھی‘ اس کے پرنسپل نے آنے سے روک دیا۔ غرض ہیلن پر اتنا شدید دباؤ ڈالا گیا کہ اس نے دنیائے صحافت ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔وہ پھر گھر میں قید ہو کر رہ گئی اورعالم ِتنہائی میں تین سال بعد دنیا سے رخصت ہوئی۔یوں یہود ِامریکہ نے ایک بار پھر دنیا والوں کو دکھا دیا کہ وہ اکلوتی عالمی سپرپاور کی سرزمین پر کتنی زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔