سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل جیل میں ہوگا ، خصوصی عدالت کا فیصلہ
اسلام آباد: وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے انکشاف کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دلانے کا مقصد ان معلومات تک براہ راست رسائی حاصل کرنا تھا جو وفاقی حکومت عالمی قرض دہندہ کے ساتھ شیئر کرنے سے گریزاں تھی۔
فواد حسن فواد کا چونکا دینے والا یہ بیان گزشتہ سال جنوری میں آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو مکمل خود مختاری دلانے کے پیچھے مشکوک محرکات کو مزید گہرا کرسکتا ہے اور اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کے کردار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
بینکنگ سیکٹر سے متعلق ایک سوال پروفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پہلے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دلائی پھرگورنر اسٹیٹ بینک کو اپنا محتاج بنایا اور اب براہ راست بینک سے وہ تمام معلومات حاصل کر رہا ہے جو پہلے حکومت پاکستان اسے نہیں دیا کرتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کمرشل بنکوں کے لنڈنگ اور ڈیپازٹ ریٹ کے پھیلائو کو کم کرنے کا کیوں نہیں کہتے جو اسوقت دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نج کاری کمشن نیشنل بنک میں پڑے ہوئے اپنے 6 ارب ڈالر کے ڈیپازٹ پر صرف 4فیصد منافع حاصل کر رہا ہے۔ 2022 سے پہلے آئی ایم ایف مرکزی بینک کے ساتھ وزارت خزانہ کے ذریعے معاملات کرتا تھا لیکن ایس بی پی ایکٹ میں ترامیم کے بعد وزارت خزانہ کو سٹیٹ بنک اور آئی ایم ایف کے معاملات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ، سوائے ان باتوں کے جن کے بارے میں گورنر اسٹیٹ بینک خود وزیر خزانہ یا وزارت کو آگاہ کرتے ہیں۔
2022 میں اپوزیشن جماعتوں کو ایس بی پی ایکٹ میں ترامیم پر سخت تحفظات تھے ان کا موقف تھا کہ اس سے پاکستان کی اقتصادی خود مختاری پر سمجھوتہ ہوگا اورملک کی مالیاتی پالیسیوں کے فیصلے کرنے کا کلی اختیار سٹیٹ بنک کو حاصل ہوجائیگا۔ جنوری 2022 میں 1 ارب ڈالر کے قرض قسط کے بدلے میں سٹیٹ بنک کو مکمل خود مختاری دیدی ساتھ بنک کے گورنر کو اپنے معاملات میں مکمل خود مختاری بھی دی گئی۔
2021 میں ایکسپریس ٹریبیون نے خبر دی تھی کہ اس وقت کے مرکزی بینک کی انتظامیہ وزارت خزانہ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ترامیم کو قبول کرے ورنہ آئی ایم ایف کی 1 بلین ڈالر کی قسط ملنا ممکن نہیں ہوگی۔