جدت طرازی ترقی کی کلید – ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی اب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب توجہ جدت طرازی اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی ترقی اور برآمد پر مرکوز ہو۔
مزید پڑھیں: جدت طرازی ترقی کی کلید – ڈاکٹر عطاء الرحمٰنپاکستان کی ترقی کیلئے ہمیں تیزی سے راستے بدلنے کی ضرورت ہے اور اپنی حقیقی دولت یعنی اپنے ملک کے نوجوانوںپر توجہ دینا ہوگیاوران کی صلاحیتوں کو اعلیٰ معیار ی تعلیم، سینس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کے ذریعے اجاگر کرنا ہوگا یہ نوجوان طلبا ء نہ صرف ہمارا بلکہ ہمارے ملک کا بھی سرمایہ ہیں ۔ ان کی جدید علوم میں تعلیم و بھرپور مہارت انتہائی ضروری ہے۔ صرف اور صرف اسی بل بوتے پر ہم اور ہماری قوم عالمی صف میں باوقار انداز سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ ہماری توجہ ان اہم شعبوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اگلی نسل کی جینیات،نئے مواد ، توانائی ، تجدیدی ادویات، معدنیات اور جدید زراعت مرکوزہونی چاہئے۔ان شعبوں کی تیز ترین ترقی اور اہمیت پر اس مضمون میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں، مصنوعی ذہانت کا شعبہ پہلے ہی تیزی سےترقی کر رہاہے۔ اس کا استعمال طبی تشخیص، مالی پیشں گوئی، خود کارموٹر گاڑیوں اور بار بار ہونے والے کاموں میں انسانوں کی جگہ لے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 5سال میں مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ کا حجم تقریباً 16 کھرب ڈالر ہو جائے گا۔ اس شعبے میں دیگر ٹیکنالوجیوں میں بلاک چین ، انٹرنیٹ آف تھنگز،اور G6نیٹ ورکس شامل ہیں۔ G6نیٹ ورکس G 5ٹیکنالوجیوں سے زیادہ تیز ہوں گےاور امکان ہے کہ وہ ورچوئل اور اگمینٹڈ رئیلٹی ، فوری مواصلات، وسیع مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز جیسی اطلاقیات کے لئے ممد و معاون ثابت ہوگا ۔ بلاک چین ایک مرکزی ڈیجیٹل کھاتہ ہے جو محفوظ اور شفاف طریقے سے لین دین کو ریکارڈ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں سپلائی چین مینجمنٹ فنانس اور ووٹنگ کے نظام سمیت کئی صنعتوں میں جدت لانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کو ایک غیر مرکزی ڈیجیٹل کرنسی بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جو تیز، سستی اور محفوظ لین دین کو یقینی بنا سکتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور تیزی سے ابھرتا ہوا شعبہ انٹرنیٹ آف تھنگز ہے۔ یہ منسلک آلات کا ایک نیٹ ورک ہے جو ایک سے دوسرے آلے کو معلومات فراہم کر سکتا ہے اور اسےمنتقل بھی کر سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے بہت سی صنعتوں جیسے نقل و حمل، سامان سازی اور صحت کی دیکھ بھال کے لئے تھنگز سےچلنے والے ایسے آلات اب دستیاب ہیں جو گاڑیوں کا حقیقی وقت میں تعاقب کرتے ہیں، سامان سازی کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک یا شہر سے گاؤں کے مریضوں کی صحت کی نگرانی بھی کرسکتے ہیں۔
موبائل نیٹ ورکس کی اگلی نسل کا انحصار اب G 5اور G 6ٹیکنالوجیوں پر ہوگا۔ یہ کم وقت میں بہت تیز انٹرنیٹ کی رفتار فراہم کرتی ہیں۔ ٹیلی مواصلات، گیمنگ، ورچوئل رئیلٹی، اور ریموٹ کنٹرولڈ سرجری سمیت کئی صنعتوں میں ان کا اطلاق کافی مفید ثابت ہوگا۔ G 6نیٹ ورکس سے توقع ہے کہ وہ پچھلے تمام نیٹ ورکس سے کہیں زیادہ تیز اور زیادہ متنوع ہو گا۔ ایک اور تیزی سے ترقی پذیر شعبہ جینیات کا ہے۔ اسے طب میں صحت سے متعلق ادویات تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ میرے والد کے نام سے منسوب ایک تحقیقی مرکز، جمیل الرحمان مرکز برائے جینیاتی تحقیق، جامعہ کراچی میں جینیاتی تحقیق میں کام کر رہا ہے جو جدید ترین سہولتوںسے آراستہ ہے۔موجودہ دور میں ایک اور قابل ذکر دلچسپی کا شعبہ تجدیدی ادویات کا ہے۔ دافع عمر رسیدگی مرکبات تیار کئے گئے ہیں جو عمر بڑھنے کے عمل کو سست کر سکتے ہیں، اور اس تحقیق نے موجودہ دور میں خاص اہمیت حاصل کی ہے۔ دل، پھیپھڑوں، گردے اور آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کیلئے اسٹیم سیل ٹیکنالوجیوں کی جانب توجہ دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے سالمیاتی طب و ادویاتی تحقیق میں اسٹیم سیل ریسرچ پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک بہترین لیبارٹری قائم کی گئی ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے،بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی میں واقع ہے۔ ایک اور شعبہ جو برق رفتاری سے ترقی کر رہا ہے وہ ہے نئے مواد کا میدان۔ نینو ٹیکنالوجی میں تحقیق کیلئے ، لطیف ابراہیم جمال نینو ٹیکنالوجی مرکز ،جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم میں قائم کیا گیا ہے، اور یہ حیاتیاتی سرگرمیوں کے ساتھ نینوادویات سازی جیسے شعبوں میں اہم تحقیق کر رہا ہے تاکہ موجودہ دستیاب ادویات کے مقابلے میں بہتر حیاتیاتی سرگرمی اور کم نقصان دہ ادویات بنائی جا سکیں۔ اس کے علاوہ حیاتی تحلیلی پولیمرزاور ہائیڈروجیلز کو طبی میدان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ نئے اسمارٹ مواد جو رنگ یا شکل کو تبدیل کر سکتے ہیں، کپڑا سازی کی صنعت میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، توانائی کی صنعت میں سیلیکان پر مبنی شمسی خلئے، لیتھیم سلفر بیٹریاں اور ہائیڈروجن ایندھن خلئے استعمال ہو رہے ہیں۔
پاکستان کا مستقبل ان ترقی پذیرجدت طراز شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ ہمیں تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی،جدت طرازی کو سب سے زیادہ ترجیح دینی چاہئے تاکہ اگلی دہائی میں اپنی برآمدات کو موجودہ 30ارب ڈالر سے بڑھا کر 100ارب ڈالر تک لے جا سکیں۔ اس کیلئے ہمارے پاس ایک پر بصیرت، ایماندار اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے قابل حکومت ہونی چاہئے جو علمی سطح پر مقابلے کی صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف ملک کو منتقل کرسکے۔